(ایجنسیز)
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے تاریخی شہر الخلیل کی پرانی جامع مسجد الابراہیمی میں 25 فروری 1994ء کو باروکھ گولڈشٹان نامی یہودی دہشت گرد کے ہاتھوں 29 نمازیوں کی شہادت اور 150 کے زخمی ہونے کی یاد میں مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ جمعہ کے روز مغربی کنارے کے کئی شہروں میں صہیونی فوج اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق الخلیل شہر میں جمعہ کے اجتماعات کے بعد ایک بڑی ریلی نکالی گئی، جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن صہیونی ریاستی دہشت گردی کے خلاف نعرے درج تھے۔ اس کے علاوہ مظاہرین سنہ 1994ء سے بند شہر کی مرکزی شاہراہ کے دوبارہ کھولے جانے کے حق میں بھی نعرے بازی کر رہے تھے۔
پی آئی سی کے نامہ نگار کے مطابق ایک بڑی احتجاجی
ریلی قدیم الخلیل شہر کی جامع مسجد بکاء سے نکلی اور شہر کی بند سڑک"شاہراہ شہداء" کی طرف روانہ ہو گئی۔ راستے میں اسرائیلی فوجیوں نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے صہیونی فوجیوں کو روکنے کی کوشش کی تاہم ریلی آگے بڑھتی رہی۔
مظاہرین نے شاہراہ شہداء کے کھولے جانے کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔ صہیونی فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر اشک آور گیس کی شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں دسیوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینی مظاہرین نے آنسوگیس کی شیلنگ کے درمیان دشمن فوجیوں پر سنگ باری کی۔
خیال رہے کہ الخلیل کی جامع مسجد ابراہیمی میں باروکھ نامی ایک یہودی دہشت گرد کے ہاتھوں پچیس نمازی شہید اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئےتھے۔ اس ہولناک واقعے کو بیس سال گذر چکے ہیں لیکن فلسطینی عوام آج تک اس بربریت کو فراموش نہیں کر سکے ہیں۔ ہرسال پچیس فروری آتے ہی ہزاروں فلسطینی گھروں سے نکل کر صہیونی دہشت گردی کےخلا احتجاج کرتے ہیں۔